آج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول Waris shah

آج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول

تے اج کتاب عشق دا، کوئی نواں ورقہ کھول


AJ Aakha Waris Shah nu


آج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول

تے اج کتاب عشق دا، کوئی نواں ورقہ کھول


اک روئی سی دھی پنجاب دی، توں لکھ لکھ مارے وی

اج لکاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن

اٹھ دردمنداں دیا دردیہ، اٹھ تک اپنا پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں، تے لہو دی بھریں چناب

کسے نے پنجاں پانیواں، وچ دتی زہر رلا

تے اج بلیاں رانجھے دیواں، اجھی بجھائیاں بلاء

اج سارے قید قصوریاں، تے لوک وس گئے تھگ

اج کتھوں لیائیے لب کے، وارث شاہ اک ہور

waris shah poetry

............................................................................................................................................................................................................................................................................................................................................

وارث شاہ: پنجابی شاعری کا درخشاں ستارہ

وارث شاہ (1722-1798) پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر، عالم اور فلسفی تھے۔ وہ مغلیہ دور کے ایک ایسے شاعر تھے جنہوں نے اپنے کلام میں محبت، درد، تصوف اور معاشرتی حقیقتوں کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

وارث شاہ کی پیدائش 1722 میں مغلیہ ہندوستان کے علاقے شیخوپورہ (موجودہ پاکستان) کے ایک گاؤں جنڈیالہ شیر خان میں ہوئی۔ وہ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم قصور کے مدرسے میں حاصل کی، جہاں انہوں نے عربی، فارسی، اور اسلامی علوم میں مہارت حاصل کی۔ تصوف میں ان کی گہری دلچسپی نے انہیں صوفیائے کرام کے قریب کر دیا، جس کا اثر ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔

ہیـــر رانجھا: پنجابی ادب کا شاہکار

وارث شاہ کو خاص طور پر ان کی لازوال تخلیق "ہیر رانجھا" کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ مثنوی نہ صرف ایک رومانوی داستان ہے بلکہ اس میں پنجابی سماج کے رسم و رواج، ناہمواریوں اور انسان کے روحانی پہلوؤں کو گہرائی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ "ہیر رانجھا" میں عشق مجازی کو عشق حقیقی تک پہنچانے کی جستجو بیان کی گئی ہے۔

شاعرانہ اسلوب اور تصوف

وارث شاہ کی شاعری میں سادگی، روانی، اور گہری فلسفیانہ سوچ پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے الفاظ میں درد، محبت، اور سچائی کی تلاش کو بڑے دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ ایک درویش منش شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری میں صوفیانہ افکار کو محبت کے پردے میں سمویا۔

وارث شاہ کا اثر و رسوخ

ان کا کلام آج بھی پنجابی ادب میں ایک سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ ہیر رانجھا کو کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے، اور ان کے اشعار آج بھی پنجابی ثقافت، گیتوں، اور لوک داستانوں میں زندہ ہیں۔ ان کے کلام نے نہ صرف ادبی حلقوں میں بلکہ عوام میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

وفات

وارث شاہ کا انتقال 1798 میں ہوا، اور انہیں جنڈیالہ شیر خان میں سپرد خاک کیا گیا۔ آج بھی ان کا مزار عقیدت مندوں اور ادب کے شائقین کے لیے ایک زیارت گاہ ہے۔

نتیجہ

وارث شاہ کی شاعری محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ پنجابی ثقافت، عشق، اور تصوف کا ایک حسین امتزاج ہے۔ ان کی تخلیقات آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں، جو ہمیشہ عشق اور سچائی کی علامت بنی رہیں گی۔



Post a Comment

0 Comments